آنکھیں
حریص نوچ لوں ، چہرے ادھیڑ دوں
جتنے
غلط بُنے گئے ، لہجے ادھیڑ دوں
پھر
ساری ڈوریوں کو میں سلجھاؤں بیٹھ کر
آپس
میں جو الجھ گئے ، فرقے ادھیڑ دوں
منظر
دکھا رہی ہے وہ جو دیکھنے نہ تھے
ایسا
نہ ہو میں آنکھ کے ، خُلیے ادھیڑ دوں
جرّاحِ
وقت!
ٹھیک سے پیوند کر یہ زخم
رسنے
لگیں تو یہ نہ ہو ، سارے ادھیڑ دوں
اتنی
بری ہے عالمِ وحشت میں ایک روز
اس
الٹی کائنات کے ، ریشے ادھیڑ دوں
دم
گھٹ رہا ہے آج تو پوشاکِ عمر میں
جی چاہتا ہے زیست کے ، بخیے ادھیڑ دوں
Tags:
POETRY