مہ جبینوں کی اداؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
اس
کا مطلب ہے بلاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
باب
تاثیر سے ناکام پلٹ آئی ہے
اس
لئے اپنی دعاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
تیری
دہلیز پہ جھکنے کا سوال آیا تھا
میں
زمانے کی اناؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
جو
مسافر کے لئے باعث تسکین نہیں
ایسے
اشجار کی چھاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
جو
غریبوں کا دیا پھونک کے تھم جاتی ہے
ایسی
کم ظرف ہواؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
اب
تری گود کے پالوں میں بھی احساس نہیں
بس
یہی سوچ کے گاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
عرش
والے مری توقیر سلامت رکھنا
فرش
کے سارے خداؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
اپنے
قاتل سے الجھنے کا ارادہ کر کے
لوگ
کہتے ہیں خلاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
ایک
کم ظرف کی بے ربط جفا کی خاطر
شہر
والوں کی وفاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
تیری
دستار سے کاظمؔ میں الجھ نہ پاتا
بس
یہی سوچ کے پاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
کاظم حسین کاظم
Tags:
POETRY